سورة البقرة - آیت 195

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ ایسا نہ کرو کہ (جہاد کی اعانت سے غافل ہو کر) اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو، نیکی کرو، یقینا اللہ کی محبت انہی لوگوں کے لیے ہے جو نیکی کرنے والے ہیں﷽

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

274: ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اسلام کو قوت و غلبہ حاصل ہوگیا تو انصار نے خفیہ طور پر مشورہ کیا کہ اب تو اسلام معزز و مکرم ہوگیا اور اس کے مددگاروں کی تعداد بہت ہوگئی، اس لیے ہمیں اب اپنے مال و جائداد کا خیال کرنا چاہئے اور جو ضائع ہوچکا ہے اس کی اصلاح کرنی چاہئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابو داود، ترمذی، نسائی، حاکم) اس روایت کے رو سے مال و جائداد کے پاس اقامت پذیر ہونا، اور اللہ کی راہ میں جہاد چھوڑ دینا۔ ہلاکت و بربادی ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے الفاظ سے استدلال کرتے وقت اس سبب خاص کا اعتبار نہیں ہوتا، جس کے بعد وہ آیت نازل ہوئی یا وہ حدیث وارد ہوئی بلکہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے اس لیے ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس میں مسلمانوں کی ہلاکت کا ڈر ہوگا، اس آیت کے حکم میں داخل ہوگی۔ حاکم نے کہا ہے کہ یہ آیت مندرجہ ذیل امور پر دلالت کرتی ہے، اگر ہلاکت کا ڈر ہو تو جہاد میں وقتی طور پر شکست قبول کرلینا جائز ہے۔ اگر امر بالمعروف کی وجہ سے کسی خطرے کا اندیشہ ہو تو خاموشی جائز ہے اگر حاکم وقت کو اپنی اور مسلمانوں کی ہلاکت کا ڈر ہوگا تو کافروں اور باغیوں کے ساتھ مصالحت جائز ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے صلح حدیبیہ میں، علی بن ابی طالب نے صفین میں اور حسن بن علی (رض) نے معاویہ (رض) کے ساتھ کیا، بلکہ اگر مسلمانوں کی بربادی کا ڈر ہوگا تو دشمن سے مال کے عوض مصالحت جائز ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے غزوہ احزاب کے موقع سے مدینہ منورہ کے ایک تہائی پھل کے عوض مصالحت کرنی چاہی، لیکن سعد بن عبادہ سے مشورہ کرنے کے بعد ایسا نہیں کیا (سیرت ابن ہشام)