سورة النحل - آیت 92

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور دیکھو تمہاری مثال اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے بڑی محنت سے سوت کا تا، پھر توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ تم آپس کے معاملہ میں اپنی قسموں کو مکرو و فساد کا ذریعہ بناتے ہو، اس لیے کہ ایک گروہ (کسی) دوسرے گروہ سے (طاقت میں) بڑھ چڑھ گیا ہے (یاد رکھو) اللہ اس معاملہ میں تمہاری (راست بازی و استقامت کی) آزمائش کرتا ہے (کہ تم طاقتور گروہ کا پاس کرنے لگتے ہو یا اپنے قول و قرار کا) جن جن باتوں میں تمہارے اختلاف ہیں ضرور ایسا ہوگا کہ وہ قیامت کے دن (حقیقت حال) تم پر آشکارا کردے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(58) اس آیت کا تعلق گزشتہ آیت سے ہے، یعنی اللہ کے نام پر کئے گئے وعدوں کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو نہ توڑو، اس لیے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری مثال اس احمق اور پاگل عورت کی ہوجائے گی جو مضبوط اور پائیدار دھاگے بانٹی ہو اور پھر اسے کھول کر بکھیر دیتی ہو۔ کہتے ہیں کہ مکہ میں ربطۃ بنت عمر نام کی ایک عورت تھی جو ایسا کرتی تھی، اس مثال میں اس طرح اشارہ ہے کہ عقل و ہوش والے مرد اپنی قسمیں نہیں توڑتے ہیں، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ احمق اور نا سمجھ عورتوں کے زمرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اہل ایمان کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ اپنی قسموں کو دھوکہ دہی اور زمین میں فساد پھیلانے کا ذریعہ نہ بنائیں، مثال کے طور مسلمان کسی جماعت یا قبیلہ کے ساتھ معاہدہ کرلیں اور پھر اس پرقائم نہ رہیں اور اس جماعت یا قبیلہ کی مخالف جماعت یا قبیلہ کے ساتھ صرف اس لیے معاہدہ کرلیں کہ یہ لوگ پہلے والوں سے زیادہ طاقتور یا جتھ والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے حالات پید اکر کے وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے کہ تم اپنے عہد و پیمان پر باقی رہتے ہو، یا دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر نقض عہد کر بیٹھتے ہو۔ اگر عہد سے نبی کریم (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت مراد لی جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مکی دور کے مسلمانوں کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ اپنے عہد و پیمان پر قائم رہتے ہیں یا قریش والوں کی کثرت تعداد اور قوت و جائیداد اور مسلمانوں کی قلت عدد اور محتاجی و کمزوری کی وجہ سے دھوکے میں پڑجاتے ہیں اور اسلام سے برگشتہ ہوجاتے ہیں، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حق و باطل کو واضح کردے گا اور آج جو لوگ حق پر قائم رہیں گے اور قریش کی کثرت و طاقت کے دھوکے میں نہیں پڑیں گے، اس دن انہیں اجر عظیم عطا فرمائے گا اور ان کے درجات بلند کرے گا، اور جن کے قدموں میں لغزش آجائے گی اور اسلام سے برگشتہ ہوجائیں گے انہیں عذاب میں مبتلا کرے گا۔