يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے پیغمبر لوگ تم سے (مہینوں کی) چاند رات کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہہ دو یہ انسان کے لیے وقت کا حساب ہے اور اس سے حج کے مہینے کا تعین ہوجاتا ہے (باقی جس قدر توہمات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی رسمیں اختیار کر رکھی ہیں تو ان کی کوئی اصلیت نہیں) اور یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں (دروازہ چھوڑ کر) پچھواڑے سے داخل ہو) جیسا کہ عرب کی رسم تھی کہ حج کے مہینے کا چاند دیکھ لیتے اور احرام باندھ لینے کے بعد اگر گھروں میں داخل ہونا چاہتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے، پچھواڑے سے راہ نکال کر جاتے) نیکی تو اس کے لیے ہے جس نے اپنے اندر تقوی پیدا کیا۔ پس (ان وہم پرستیوں میں مبتلا نہ ہو) گھروں میں آؤ تو دروازے ہی کی راہ آؤ۔ (پچھواڑے سے راہ نکالنے کی مصیبت میں کیوں پڑو) البتہ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ (طلب سعادت میں) کامیاب ہو
269: آیت کا پہلا حصہ İيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِĬ، معاذ بن جبل اور ثعلبہ بن غنم (رض) کے بارے میں نازل ہوا۔ ان دونوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا راز ہے کہ چاند دھاگے کے مانند باریک طلوع ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ گول ہوجاتا ہے، پھر گھٹنے لگتا ہے یہاں تک کہ پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے، ایک حال پر باقی نہیں رہتا، تو یہ آیت نازل ہوئی (ابو نعیم، ابن عساکر)۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ چاند کے ذریعہ لوگ اپنی ضرویات زندگی کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ قرض، روزہ، افطار، حج، اجرتیں، ماہواری کے ایام، عورتوں کی عدت، اور بہت سی شرطوں کی مدت، یہ سارے مواعید چاند ہی کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔ 270۔ انصار اور دوسرے عرب حج کا احرام باندھ لینے کے بعد اگر کوئی ضرورت پیش آجاتی تو اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے، ان کا خیال تھا کہ عبادت اور نیکی کا تقاضا یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی، کہ یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیں دیا ہے، نیکی یہ ہے کہ آدمی تقوی کی راہ اختیار کرے، چنانچہ اللہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ حالت احرام میں بھی اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہوں۔