سورة البقرة - آیت 180

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو ! یہ بات بھی تم پر فرض کردی گئی ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی محسوس کرے کہ اس کے مرنے کی گھڑی آگئی اور وہ اپنے بعد مال و متاع میں سے کچھ چھوڑ جانے والا ہوں تو چاہیے کہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے اچھی وصیت کرجائے۔ جو متقی انسان ہیں ان کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

259: اس آیت کریمہ میں والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کا حکم ہے صحیح قول کے مطابق میراث کی آیت نازل ہونے کے قبل، وصیت واجب تھی۔ آیت میراث کے نزول کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا، اور اللہ کی طرف سے ورثہ کے لیے مقرر کردہ حصے لازم ہوگئے، جنہیں وہ میت کی وصیت کا احسان لیے بغیر پائیں گے۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا، اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ وغیرہ) امام شافعی اپنی کتاب (الرسالہ) میں لکھتے ہیں کہ یہ متن متواتر ہے، اور تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فتح مکہ کے سال فرمایا تھا کہ (وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں) امام احمد نے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ ابن عباس (رض) نے سورۃ بقرہ کی تلاوت کی، اور جب اس آیت پر پہنچے تو کہا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ لیکن وہ رشتہ دار جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے مال میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیا ہے، ان کے لیے اسی آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وصیت کرنا مستحب ہے۔ اور اس کام کے لیے مال کا تیسرا حصہ استعمال ہوگا جس کی وصیت کرنی جائز ہے۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سعد بن ابی وقاص کو صرف ایک تہائی مال میں وصیت کرنے کی اجازت دی تھی۔