سورة البقرة - آیت 173

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ نے جو چیزیں تم پر حرام کردی ہیں وہ تو صرف یہ ہیں کہ مردار جانور، حیوانات کا خون، سور کا گوشت، اور وہ (جانور) جو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کے نام پر پکارے جائیں۔ البتہ اگر ایسی حالت پیش آجائے کہ ایک آدمی (حلال غذا نہ مل سکنے کی وجہ سے) بہ حالت مجبور کھا لے اور یہ بات نہ ہو کہ حکم شریعت کی پابندی سے نکل جانا چاہتا ہو یا اتنی مقدار سے زیادہ کھانا چاہتا ہو جتنے کی (زندگی بچانے کے لیے) ضرورت ہے تو اس صورت میں مجبور آدمی کے لیے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ بلاشبہ اللہ (خطاؤں لغزشوں کو) بخش دینے والا اور (ہر حال میں) تمہارے لیے رحمت رکھنے والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

250: اکل حلال کی ترغیب و نصیحت کے بعد، یہاں بعض ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا کھانا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مردہ جانور (چاہے وہ جیسے بھی مرا ہو) خون، سور کا گوشت، اور جس جانور کو غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو، حرام کردیا ہے، ہاں اگر کوئی شخص اضطراری حالت میں جان بچانے کے لیے کھالیتا ہے تو گناہ گار نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ مسروق کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اضطراری حالت میں کوئی حرام چیز کھا پی کر اپنی جان نہیں بچائی اور مرگیا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا، ابو الحسن الکیا الہراسی (صاحب احکام القرآن) کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ بات صحیح ہے، جیسے کہ مریض پر افطار بسا اوقات واجب ہوجاتا ہے۔ 251:۔ 1۔ جمہور اہل علم نے سمندر کے مردہ کو مستثنی قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: İأُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعامُهُĬ، یعنی تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا، (المائدہ : 96۔ ) اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ (سمندر کا پانی پاک کرنے والا، اور اس کا مردہ حلال ہے) (مسند، موطا، سنن) اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے لیے دو مردے اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں۔ دو مردوں سے مراد، مچھلی اور ٹڈی ہے، اور دو خون سے مراد : کلیجی اور تلی ہے۔ 2۔ امام بخاری نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، کچھ لوگوں نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھا کہ بعض لوگ ہمیں گوشت دیتے ہیں، اور ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم بسم اللہ پڑھ کر اسے کھالو۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ حرام وہ گوشت نہیں جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں، بلکہ حرام وہ ہے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے، آپ نے کہا کہ اگر یہود و نصاری غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کریں تو نہ کھاؤ اور اگر ایسا نہ سنو تو کھاؤ، اس لیے کہ اللہ نے ان کے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت حلال قرار دیا ہے، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ لوگ ذبح کرتے وقت کیا کہتے ہیں۔