وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ
اور (اے پیغمبر) لوگوں کو اس دن کی آمد سے خبردار کردو جبکہ ان پر عذاب نمودار ہوجائے گا، اس دن ظلم کرنے والے کہیں گے پروردگار ! تھوڑی سی مدت کے لیے ہمیں مہلت دے دے، ہم (اب ہرگز انکار و سرکشی نہیں کریں گے اور) تیری پکار کا جواب دیں گے اور پیغمبروں کی پیروی کریں گے (لیکن انہیں جواب ملے گا) کیا تم ہی نہیں ہو کہ اب سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے ہمیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا؟
(32) یہاں بھی خطاب نبی کریم (ﷺ)سے ہے اور الناس سے مراد یا تو عام لوگ ہیں یا اہل مکہ ہیں، پہلا قول راجح ہے اس لیے کہ قیامت کے دن سے ڈرایا جانا مسلم و کافر سب کو شامل ہے، کفار موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے، اور جب کوئی داعی الی اللہ ایسی بات کرتا تو قسمیں کھا کر کہتے کہ دوسری زندگی کا عقیدہ باطل ہے، سورۃ النحل آیت (38) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ وہ لوگ بڑی بھاری قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ جو آدمی مرجائے گا اللہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔