سورة ابراھیم - آیت 42

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ ان ظالموں کے کاموں سے غافل ہے (یعنی روسائے مکہ کے کاموں سے) دراصل اللہ نے ان کا معاملہ اس دن تک کے لیے پیچھے ڈال دیا ہے جب (نتائج عمل کی ہلاکتیں ظہور میں آئیں گی، اس دن ان لوگوں کا یہ حال ہوگا، کہ شدت خوف وحیرت سے) آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(30) یہاں مخاطب اگرچہ نبی کریم (ﷺ)ہیں، لیکن مقصود ان کی امت ہے، اور ظالمون سے مراد مکہ کے مشرکین ہیں، یعنی اگر اللہ نے انہیں مہلت دے دی ہے اور عذاب کو ان سے موخر کردیا ہے تو اس سے انہیں اس غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ ان سے غافل ہے، یا انہیں درگزر کردیا ہے، بلکہ وہ ان تمام گناہوں کو ایک ایک کر کے ان کے نامہ اعمال میں جمع کر رہا ہے، اور جب وہ دن آجائے گا جب مارے دہشت کے لوگوں کی آنکھیں اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی، تو وہ سارے اعمال بد ان کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں نبی کریم (ﷺ)کو تسلی دی گئی ہے اور نصرت و کامرانی کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفار مکہ کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی تو برے انجام کا انتظار کریں۔