يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
مسلمانو ! اگر اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو (اور سمجھتے ہو کہ حلال و حرام میں حکم اسی کا حکم ہے تو) وہ تمام پاکیزہ چیزیں بے کھٹکے کھاؤ جو اللہ نے تمہاری غذا کے لیے مہیا کردی ہیں اور اس کی نعمتیں کام میں لا کر اس کی بخشایشوں کے شکر گزار رہو
249: آیت (168) میں اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو خطاب کر کے کہا ہے کہ حلال و طیب روزی کھاؤ۔ اس آیت میں خطاب مؤمنین کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ اپنے ایمان کی بدولت یہی لوگ اللہ کے اوامر و نواہی سے صحیح معنوں میں استفادہ کرسکتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو پاکیزہ روزی کھانے اور اس کا شکر ادا کرتے رہنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اللہ نے انبیاء و رسل کو حکم دیا اور فرمایا: ، یعنی اے میرے رسولو ! پاکیزہ روزی کھاؤ اور عمل صالح کرو، (المؤمنون : 51۔ ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں، طیبات، سے مراد وہ کھانے ہیں جو عقل و اخلاق کے لیے نفع بخش ہیں، اور اس کے مقابلے میں، خبائث، ان کھانوں کو کہتے ہیں جو عقل و اخلاق کے لیے نقصان دہ ہیں، اور شراب تمام خبیث کھانوں کی اصل ہے، اس لیے کہ وہ عقل و اخلاق میں فساد ڈال دیتی ہے۔ انتہی۔ فائدہ : حلال روزی دعا اور عبادت کی مقبولیت کا سبب ہے، اور حرام روزی کھانے سے دعا اور عبادت رد کردی جاتی ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ ایک آدمی لمبے سفر پر ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں، پریشان حال ہے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلا کر یارب یارب کہتا ہے، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، اور حرام کے ذریعہ اس کی پرورش ہوئی ہے، تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ (مسلم)۔