وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
غرض کہ تمہیں (اپنی زندگی کی کاربراریوں اور کامرانیوں کے لیے) جو کچھ مطلب تھا اس نے عطا فرما دیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی ان کا احاطہ نہ کرسکو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے۔
اور بندوں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے اسے اللہ نے ان کے لیے فراہم کردیا، گویا انہوں نے زبان حال سے ان چیزوں کو اپنے لیے اللہ سے مانگا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے بندو ! اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو گے تو نہیں کرسکو گے کیونکہ ان کی کوئی انتہا نہیں ہے، اور آخر میں یہ بتایا کہ جو آدمی ایمان و یقین اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محروم ہوتا ہے وہ اللہ کی ناشکری کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے اور وہ بہت ہی بڑا ناشکرا ہوتا ہے، اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے ور قول و عمل کے ذریعہ اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق اس سے چھین لی جاتی ہے۔