سورة ابراھیم - آیت 4

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے کوئی پیغمبر دنیا میں نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ اپنی قوم ہی کی زبان میں پیام حق پہنچانے والا تھا تاکہ لوگوں پر مطلب واضح کردے۔ پس اللہ جس پر چاہتا ہے (کامیابی کی) راہ گم کردیتا ہے، جس پر چاہتا ہے کھول دیتا ہے، وہ غالب ہے حکمت والا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(4) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل کرکے اور نبی کریم (ﷺ) کو مبعوث کر کے عربوں پر اپنے احسان کی تکمیل یوں کی کہ رسول اللہ عربی تھے، ان کی زبان عربی تھی تاکہ آپ امور شریعت کو انہی کی زبان میں ان کے سامنے بیان کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فصلت آیت (44) میں فرمایا ہے : اگر ہم قرآن کو عجمی زبان میں اتارتے تو وہ کہتے کہ اس کی آیتیں قابل فہم کیوں نہیں بنائی گئیں ہیں۔ نبی کریم (ﷺ)پوری دنیا والوں کے لیے اور تمام جن و انس کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، لیکن چونکہ آپ عربی تھے، اور عربی زبان دنیا کی سب سے گہری اور وسیع زبان ہے، اسی لیے قرآن عربی زبان میں نازل ہوا، اور دوسری قوموں تک قرآن کا پیغام بذریعہ ترجمہ پہنچا، ان قوموں نے اسلام لانے کے بعد حفظ قرآن اور فہم قرآن کے لیے خوب محنت کی، تراجم تیار کیے، تفسیریں لکھیں، عربی زبان میں دسترس حاصل کیا اور قرآن و سنت کو ان کی اصل زبان میں سمجھا اور اسلام کی دعوت کو اسی طرح سمجھا جس طرح عرب مسلمانوں نے سمجھا۔ چونکہ قرآن بطور معجزہ کبری عربی زبان میں نازل ہوا ہے، ور اللہ نے اس کی حفاظت کی ضمانت لی ہے، اسی لیے ابتدائے اسلام سے لے کر اب تک دنیا کی کوئی طاقت اس میں ایک نقطہ کی بھی تبدیلی نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی، اور اس کی دعوت عربی اور غیر عربی زبانوں میں عام ہوتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔ نبی کریم (ﷺ) نے اللہ کی دعوت لوگوں تک پہنچا دی، لیکن کسی کو راہ راست پر لانا ان کی ذمہ داری نہیں تھی، اور نہ انہیں اس کا اختیار حاصل تھا، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے لطف و کرم سے ہدایت دیتا ہے۔