أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں؟ اسے اطراف سے گھٹاتے ہوئے (اور ظالموں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے؟) اور اللہ ہے جو فیصلہ کرتا ہے، کوئی نہیں جو اس کا فیصلہ ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
(41) کفار مکہ کو اس بارے میں کیوں شبہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا اور ذلت و رسوائی میں مبتلا نہیں کرے گا، کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ وہ سرزمین مکہ کو ان کے چاروں طرف سے تنگ کرتا جارہا ہے، اور ہر سال مسلمان کچھ علاقوں کو فتح کرتے ہوئے مکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور کفار مکہ کے لیے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے، اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، کسی کو اٹھاتا ہے تو کسی کو گراتا ہے، کسی کو مارتا ہے تو کسی کو زندگی دیتا ہے، اس کے فیصلوں میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا ہے، اور وہ تو بڑا جلد انتقام لینے والا ہے، دنیا میں تو قید و بند اور قتل کی شدید آزمائش میں گرفتار ہیں ہی عنقریب ہی آخرت میں بھی اللہ ان کا حساب لے گا اور ان کے برے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھائے گا۔