سورة الرعد - آیت 36

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ۖ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ ۚ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) جن لوگوں کو ہم نے کتاب (ہدایت) دی ہے (یعنی یہود و نصاری) وہ اس بات سے خوش ہوتے ہیں جو تجھ پر اتاری گئی ہے اور ان جماعتوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اس کی بعض باتوں سے انکار ہے، تو تم کہہ دو مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی بندگی کروں اور کسی ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں، اسی کی طرف تمہیں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رخ ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(34) اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ کتاب سے مراد تورات و انجیل، اور خوش ہونے والوں سے مراد وہ یہود و نصاری ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، دوسرا قول یہ ہے کہ عام یہود و نصاری مراد ہیں جو قرآن کریم کی ان آیتوں کو سن کر خوش ہوتے تھے جن سے تورات و انجیل کے احکام کی تائید ہوتی تھی۔ پہلے قول کے مطابق احزاب سے مراد وہ یہود و نصاری ہوں گے جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا، اور دوسرے قول کے مطابق مشرکین مکہ اور دیگر کفار ہوں گے یا بعض یہود و نصاری جو قرآن کا انکار اس لیے کرتے تھے کہ اس کے ذریعہ ان کی شریعتیں منسوخ ہوگئی تھیں۔ (35) نزول قرآن کے بارے میں یہود و نصاری کا موقف واضح کرنے کے بعد رسول اللہ(ﷺ) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو بتا دیں کہ آپ صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں ور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے، اور یہ وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر تمام ادیان سماویہ کا اتفاق ہے۔