سورة الرعد - آیت 30

كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغبر) اسی طرح یہ بات ہوئی کہ ہم نے تجھے ایک امت کی طرف بھیجا جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں (اور ان سب میں سچائی کے پیغامبر اپنے اپنے وقتوں میں ظاہر ہوچکے ہیں) اور اس لیے بھیجا کہ جو بات تجھ پر اتاری ہے وہ ان لوگوں کو پڑھ کر سنا دے اور ان کا حال یہ ہے کہ سرے سے خدائے رحمن ہی کے قائل نہیں۔ تم (ان سے) کہہ دو وہی میرا پروردگار ہے کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع ہوتا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(26) نبی کریم (ﷺ)کی نبوت کی تصدیق و تائید کے طور پر کہا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے پہلے بہت سے انبیاء مبعوث کیے، اب آپ کو مبعوث کیا ہے، تاکہ آپ کفار قریش اور دیگر لوگوں کو وہ قرآن پڑھ کر سنائیں جو آپ کے لیے اللہ کا سب سے بڑا معجزہ، اور بنی نوع انسان کے لیے اللہ کی رحمت ہے، لیکن کفار اس ذات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں جس کی ایک صفت رحمن بھی ہے اور جس نے اپنی اسی صفت رحمت کے تقاضے کے مطابق انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم نازل فرمایا ہے، اور آپ کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت (107) میں فرمایا ہے : کہ ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ کفار قریش نے نعمت وحی کا شکر نہیں ادا کیا، اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رحمن اللہ کا نام اور اس کی ایک عظیم صفت ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے، تو رسول اللہ (ﷺ) نے اس کی جگہ اللہ لکھنے پر اکتفا کیا تھا۔ (بخاری) صحیح مسلم میں ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے اچھے نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔