وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩
اور آسمانوں میں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے اللہ ہی کے آگے سجدہ میں گرا ہوا ہے (یعنی اللہ کے احکام و قوانین کے آگے جھکے بغیر اسے چارہ نہیں) خوشی سے ہو یا مجبوری سے، اور (دیکھو) ان کے سایے صبح و شام (کس طرح گھٹتے بڑھتے اور کبھی ادھر کبھی ادھر ہوجایا کرتے ہیں)
(15) آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں، سب اللہ کے ارادہ و مشیت اور اس کے حکم کے تابع ہیں، کوئی بھی اس کے حکم سے ایک ذرہ کے برابر سرتابی نہیں کرسکتا، جو کفار اللہ کو سجدہ نہیں کرتے، وہ بھی اس کے ارادہ و مشیت کے مطابق کبھی صحت مند ہوتے ہیں تو کبھی بیمار، ان میں کوئی مالدار ہوتا ہے تو کوئی فقیر، انہیں بھی ایک محدود وقت تک زندہ رہنے کے بعد موت لاحق ہوتی ہے، اہل ایمان اللہ کے سامنے برضا و رغبت جھکتے ہیں، اور کافر اللہ کے اوامر کو قبول کرنے پر مجبور ہیں، ایک دوسری رائے یہ ہے کہ یہاں سجدہ سے مراد حقیقی سجدہ ہے، یعنی اللہ کی تعظیم کے لیے زمین پر پیشانی ٹیکنا، تو اہل ایمان انس و جن اور فرشتے فی الواقع صبح و شام یعنی ہمیشہ اللہ کو سجدہ کرتے رہتے ہیں، اور اہل کفر حالت اضطرار میں اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ العنکبوت آیت (65) میں فرمایا ہے : İفَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَĬ کہ جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پورے اخلاص کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اسی طرح انسان اور دیگر تمام مخلوقات کے سائے بھی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، جب کوئی اللہ کو سجدہ کرتا ہے تو اس کا سایہ بھی اس کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ کوئی بعید بات نہیں کہ سایہ بھی حقیقی معنوں میں اللہ کو سجدہ کرتا ہوجیسا کہ پہاڑ اللہ کی تسبیح میں مشغول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل آیت (48) میں فرمایا ہے : İأَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَĬ یعنی کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان کے سائے دائیں اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں، اور وہ اللہ کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کیے ہوتے ہیں۔