وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
اور (اے پیغبر) یہ تم سے برائی کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ قبل اس کے کہ بھلائی کے لیے خواستگار ہوں۔ حالانکہ ان سے پہلے ایسی سرگزشتیں گزر چکی ہیں جن کی (دنیا میں) کہاوتیں بن گئیں۔ (مگر یہ ہیں کہ عبرت نہیں پکڑتے) تو اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار لوگوں کے ظلم سے بڑا ہی درگزر کرنے والا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ تیرا پروردگار سزا دینے میں بڑا ہی سخت ہے۔
(6) نبی کریم (ﷺ) اور قرآن کریم کی تکذیب کرنے والے آپ کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کی بات کرتے ہو وہ آ کیوں نہیں جاتا، یعنی بجائے اس کے کہ وہ اللہ سے عافیت اور سلامتی مانگتے، عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے ایسی قومیں گزر چکی ہیں جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو اللہ نے ان پر عذاب نازل کردیا، پھر وہ لوگ ان کے انجام سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے ہیں اور ڈرتے کیوں نہیں کہ کہیں انہیں بھی عذاب الہی اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ (7) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کی جناب میں تائب و نادم ہوگا، وہ اسے معاف کردے گا، بعض لوگوں نے یہاں مغفرت سے مراد قیامت کے دن تک سزا کی تاخیر لیا ہے، اور الناس سے وہ کفار و مشرکین مراد لیے ہیں جو عذاب کی جلدی کرتے تھے، اور کہتے ہیں کہ آیت کا آخری حصہ İوَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِĬاسی معنی کی تائید کرتا ہے یعنی قیامت کے دن آپ کا رب اگر چاہے گا تو انہیں بڑی سخت سزا دے گا۔