وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور (اے مخاطب) اگر تو عجیب بات دیکھنی چاہتا ہے تو (سب سے زیادہ) عجیب بات ان منکروں کا یہ قول ہے کہ جب ہم (مرنے کے بعد گل سڑ کر) مٹی ہوگئے تو پھر کیا ہم پر ایک نئی پیدائش طاری ہوگی؟ (یہ بات تو سمجھ میں آتی نہیں) تو یقین کرو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور یہی ہیں کہ دوزخی ہوئے ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔
(5) نبی کریم (ﷺ)کو خطاب ہے کہ اگر آپ کو اس بات پر تعجب ہے کہ کفار مکہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں، حالانکہ بچپن سے وہ آپ کو صادق و امین کے نام سے پکارتے رہے، تو اس سے بھی تعجب خیز بات آپ اور آپ کے صحابہ کے لیے یہ ہونی چاہیے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے ہیں، اس لیے کہ جو ذات واحد ان عظیم قدرتوں کا مالک ہے جن کا بیان اوپر ہوچکا ہے، اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان ہے، اس لیے بعث بعد الموت کا انکار بڑی عجیب سی بات ہے، قیامت کے دن ان کافروں کی گردن میں رسی باندھ کر جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا۔ اور ہمیشہ کے لیے اس میں ڈال دیے جائیں گے۔