سورة یوسف - آیت 90

قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(یہ سن کر بھائی چونک اٹھے اور اب جو عزیز کی صورت اور آواز پر غور کیا تو ایک نیا خیال ان کے اندر پیدا ہوگیا) انہوں نے کہا کیا فی الحقیقت تم ہی یوسف ہو؟ یوسف نے کہا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ (بنیامین) میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی (برائیوں سے) بچتا اور (مصیبتوں میں) ثابت قدم رہتا ہے تو اللہ (کا قانون یہ ہے کہ وہ) نیک عملوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(77) بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے اس سوال سے انہیں پہچان لیا، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یوسف کا واقعہ ان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا، اور بے حد حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کیا آپ ہی یوسف ہیں؟ یقینا آپ ہی یوسف ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی بنیامین ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے کہ آزمائشوں کا دور ختم ہوگیا، ایک مدت کی جدائی کے بعد دونوں بھائی مل گئے ہیں، اور ذلت کے بعد عزت اور وحشت و تنہائی کے بعد انس و قربت نصیب ہوئی ہے، اس کے بعد انہوں نے سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں ڈرتا رہتا ہے، اور تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، تو اللہ ایسے اچھے لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے، آیت میں اشارہ ہے کہ متقی اور صابر انسان ہی اللہ کے نزدیک صفت احسان کا مستحق ہوتا ہے۔