سورة یوسف - آیت 88

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب (باپ کے حکم کی تعمیل میں یہ لوگ مصر پہنچے اور) یوسف کے پاس گئے تو (اپنے پھر آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا اے عزیز ہم پر اور ہمارے گھر کے آدمیوں پر بڑی سختی کے دن گزر رہے ہیں، پس (مجبور ہو کر غلہ کی طلب میں ہمیں پھر نکلنا پڑا) ہم تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں، اسے قبول کرلیجیے، اور غلہ کی پوری تول عنایت کیجیے اور (اسے خریدوفروخت کا معاملہ نہ سمجھیے بلکہ) ہمیں (محتاج سمجھ کر) خیرات دے دیجیے، اللہ خیرات کرنے والوں کو ان کا اجر دیتا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(75) باپ کے حکم کے مطابق باقی ماندہ بھائیوں نے تیسری بار مصر کا سفر کیا، اور عزیز مصر کے دربار میں حاضری دی اور کہا کہ جناب عالی ! ہم اور ہمارے بال بچے قحط اور خشک سالی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، اور بہت ہی تھوڑی رقم لے کر آئے ہیں (انہوں نے یہ انداز بیان بادشاہ کے دل میں اپنے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے اختیار کیا تھا) لیکن آپ اپنے جود و سخا سے ہمیں اناج پہلے کی طرح پورا دیجیے اور رقم کم ہونے یا اس کے بے وقعت ہونے کا خیال نہ کیجیے، اللہ تعالیٰ صدقہ اور بھلائی کرنے والوں کو ضرور اچھا بدلہ دیتا ہے۔