سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور باپ نے انہیں (چلتے وقت) کہا، اے میرے بیٹو ! دیکھو (جب مصر پہنچو تو شہر کے) ایک ہی دروزے سے داخل نہ ہونا، جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا، میں تمہیں کسی ایسی بات سے نہیں بچا سکتا جو اللہ کے حکم سے ہونے والی ہو (لیکن اپنی طرف سے حتی المقدور احتیاط کی ساری تدبیریں کرنی چاہیں) فرماں روائی کسی کے لیے نہیں ہے مگر اللہ کے لیے (دنیا کے سارے حکمرانوں کی طاقت اس کے آگے ہیچ ہے) میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی ہے جس پر تمام بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(59) یعقوب (علیہ السلام) کے سبھی بیٹے صحت مند اور خوبصورت تھے اور اچھا لباس بھی زیب تن کرتے تھے، اس لیے انہیں ڈر ہوا کہ اگر سبھی ایک ہی دروازے سے داخل ہوں گے تو کہیں کسی کی نظر بد نہ لگ جائے، اسی لیے انہیں نصیحت کی کہ سب ایک دروازے سے شہر میں داخل نہ ہوں، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں، کہتے ہیں کہ اس وقت مصر کے چار دروازے تھے، لیکن اس کے بعد ہی فورا یہ کہا کہ میں اپنے اس تدبیر کے ذریعہ اللہ کی قضا و قدر کو نہیں ٹال سکتا ہوں، اس لیے کہ احتیاط تقدیر کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) کا مقصد یہ نہیں تھا کہ احتیاط بے کار چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا ہے : İوَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِĬ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (البقرہ:195) نیز فرمایا ہے : İخُذُوا حِذْرَكُمْĬ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو۔ (النساء : 102) ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ احتیاط ہی مقصود اصلی نہیں ہے، بلکہ محض تدبیر ہے جسے مفید بنانا اللہ کا کام ہے، اور تدبیر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی ہے، وہ اللہ سے مدد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے بھاگ کر اسی کی جناب میں پناہ لینے والی بات ہے، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ تمام فیصلے اللہ کے اختیار میں ہیں، ان میں کسی اور کا دخل نہیں ہے، اس لیے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور تمام لوگوں کو صرف اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور جمہور مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو مختلف دروازوں سے جانے کی نصیحت اس لیے کی تھی تاکہ انہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، لیکن معتزلہ نے بغیر کسی حجت و دلیل کے نظر لگنے کا انکار کیا ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نظر حق ہے رسول اللہ (ﷺ) اور بعض صحابہ کو نظر لگی تھی، بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نظر لگنا حق ہے۔ اور حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب زاد المعاد میں اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اور صحیحین اور دوسری کتابوں سے اس کے ثبوت میں صحیح احادیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ عربوں کے نزدیک یہ بات قدیم زمانے سے ثابت ہے کہ نظر لگ جاتی ہے، اسی لیے قرآن و سنت کو دین کا مرجع ماننے والوں کا اجماع ہے کہ بعض انسانوں کی نظر دوسرے انسانوں بلکہ جانوروں تک کو لگ جاتی ہے اور کتنے لوگ نظر لگنے سے ہلاک ہوجاتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ اللہ کی مخلوق کو ان کی نظر کے شر سے بچانے کے لیے انہیں یا تو حبس دوام دے دیا جائے گا یا شہر بدر کردیا جائے گا۔