سورة یوسف - آیت 65

وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ان لوگوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی انہی کو لوٹا دی گئی ہے، تب انہوں نے (اپنے باپ سے کہا) اے ہمارے باپ ! اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے؟ دیکھ یہ ہماری پونجی ہے جو ہمیں لوٹا دی گئی (ہمیں غلہ بھی اس نے دے دیا اور قیمت بھی واپس کردی، پس ہمیں اجازت دے کہ بنیامین کو ساتھ لے کر پھر جائیں) اور پنے گھرانے کے لیے رسد لے آئیں، ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لے لیں گے۔ یہ غلہ ( جو اس مرتبہ لائے ہیں) بہت تھوڑا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(57) کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک نے راستہ میں اپنے سواری کے جانور کو چارہ دینے کے لیے اپنا سامان کھولا تو اسے باقی رقم بوری کے منہ پر ہی مل گئی۔ اس نے یہ بات اپنے بھائیوں سے بتائی، اور جب کنعان پہنچ کر سب نے غلے کی اپنی اپنی بوری کھولی تو ہر ایک کو اس کی رقم بوری کے منہ پر ہی ملی، سبھی بہت زیادہ خوش ہوئے، اللہ کا شکر ادا کیا، اور سب نے بیک زبان اپنے باپ یعقوب (علیہ السلام) سے کہا کہ اب ہمیں کیا چاہیے، عزیز مصر نے بے حد تکریم کی، غلہ دیا، زاد سفر دیا، اور ہمارے پیسے بھی واپس کردیئے، اور ان کا مقصود اس گفتگو سے یہ تھا کہ یعقوب (علیہ السلام) بنیامین کو جانے کی اجازت دے دیں، اور ہم اگر اس کی بات مان لیں گے اور بھائی بنیامین کو ساتھ لے جائیں گے تو اپنے اہل و عیال کے کھانے کے لیے غلہ لائیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور بھائی کی وجہ سے ایک اونٹ کا غلہ لائیں گے، جو بادشاہ پر گراں نہیں گزرے گا۔