قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ
تب (عزیز کی بیوی) بولی تم نے دیکھا؟ یہ ہے وہ آدمی جس کے بارے میں تم نے مجھے طعنے دیے تھے، ہاں بیشک میں نے اس کا دل اپنے قابو میں لینا چاہا تھا مگر وہ بے قابو نہ ہوا، اور (اب اسے سنا کے کہے دیتی ہوں کہ) اگر اس نے میرا کہا نہ مانا (اور اپنی ضد پر اڑا رہا) تو ضرور ایسا ہوگا کہ قید کیا جائے اور بے عزتی میں پڑے۔
(30) زلیخا نے ان عورتوں سے کہا کہ یہی وہ پیکر حسن ہے جس کے بارے میں تم عورتیں مجھے کو ستی تھیں، اور جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ تمام عورتیں یوسف کے حسن سے مسحور ہوگئی ہیں اور اسے معذور سمجھنے لگتی ہیں تو اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ ہاں میں نے اسے ورغلایا تھا، لیکن اس نے قطعی طور پر انکار کردیا ہے، اور ذرا سی بھی لچک نہیں دکھائی ہے، اس کے بعد اس نے شرم و حیا کی چادر ایک طرف پھینک دی اور عشق و سرمستی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی کہا کہ میرا اس سے جو مطالبہ ہے اگر اس نے پورا نہیں کیا تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا، اور اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔