وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
اور (پھر ایسا ہوا کہ) جس عورت کے گھر میں یوسف رہتا تھا (یعنی عزیز کی بیوی) وہ اس پر (ریجھ گئی اور) ڈورے ڈالنے لگی کہ بے قابو ہو کر بات مان جائے۔ اس نے (ایک دن) دوروازے بند کردیے اور بولی لو آؤ، یوسف نے کہا معاذ اللہ ! (مجھ سے ایسی بات کبھی نہیں ہوسکتی) تیرا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھے عزت کے ساتھ (گھر میں) جگہ دی ہے ( میں اس کی امانت میں خیانت نہیں کروں گا) اور حد سے گزرنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
(23) جملہ معترضہ کے بعد اب پھر یوسف کے ساتھ عزیز مصر کے گھر میں جو کچھ پیش آیا اسے بیان کیا جارہا ہے، عزیز مصر کی بیوی نے یوسف سے فعل بد کا مطالبہ کیا، اور اس عورت کے نام کی صراحت اس لیے نہیں کی گئی تاکہ اس کا راز افشا نہ ہوجائے، اور عزیز مصر کی بیوی کے بجائے، اللہ نے کہا کہ یوسف کو گناہ پر اس عورت نے اکسایا جس کے گھر میں وہ رہتے تھے، تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ یوسف کے لیے وہ کتنی مشکل گھڑی تھی اور وہ عفت و پاکدامنی کی کس بلندی کو چھو رہے تھے کہ اس گھر میں رہنے کی وجہ سے زلیخا کا بار بار سامنا ہوتا رہا ہوگا اور وہ اپنے حسن و جمال کا مظاہرہ کرتی رہی ہوگی، تاکہ انہیں اپنی ذات میں دلچسپی لینے پر اکسائے، لیکن یوسف پر ان تمام ہتھکنڈوں کا رائی کے دانے کے برابر بھی اثر نہیں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایسا کرنے سے پہلے شدت خوف اور غایت احتیاط کی وجہ سے سات دروازے بند کیے، تاکہ وہاں تک کسی کے پہنچنے کا گمان بھی نہ ہوسکے، یوسف کی پاکدامنی کی یہ بھی ایک عظیم دلیل ہے کہ زلیخا نے انسانوں سے خوف کھانے کا ایک بھی عذر باقی نہیں رکھا تھا، اس کے باوجود ان کے دل میں گناہ کا خیال تک نہیں گزرا، یوسف نے اس کے جواب میں کہا کہ میں تمہاری اس دعوت گناہ سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، اس لیے کہ یہ تو زنا، جرم عظیم، امانت میں خیانت اور محسن کشی ہے، اور اسے اس گناہ عظیم سے باز رکھنے کے لیے اس خیانت کی شدید ترین قباحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ مجھے کس کے خلاف خیانت پر ابھار رہی ہو؟ وہ میرا آقا عزیز مصر ہے جس نے ہر طرح میرا خیال کیا ہے، تو اب میرے لیے یہ کس طرح مناسب ہے کہ اس کی عزت سے کھیلوں، ایک دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ انہ کی ضمیر اللہ کے لیے ہے، یعنی میرے رب نے تو مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، مجھے نئی زندگی دی ہے اور عزیز مصر کے پاس پہنچا کر میری تمام پریشانیوں کو دور کردیا ہے، اگر میں نے ایسا کیا تو میں ظالم ہوں گا اور ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔