فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
پس چاہیے کہ جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے تم اور وہ سب جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہو لیے ہیں (اپنی راہ میں) استوار ہوجاؤ اور حد سے نہ بڑھو، یقین کرو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
(91) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور دیگر مؤمن بندوں کو دین حق پر ہر حال میں ثابت قدم رہنے کا حکم دیا ہے، اس لیے کہ دشمنان دین پر غالب آنے کا یہی سب سے بڑا ذریعہ ہے، اور اللہ کے خلاف بغاوت و سرکشی سے منع کیا ہے، اس لیے کہ ہلاکت و بربادی کا یہی پیش خیمہ ہے۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : تیار ہوجاؤ، تیار ہوجاؤ، اس کے بعد آپ ہنستے ہوئے نہیں دیکھے گئے، مفسر ابو السعود کہتے ہیں کہ استقامت تمام اصولی و فروعی احکام اور تمام نظری اور عقلی خوبیوں کو شامل ہے۔ اور اس ضمن کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا انتہائی مشکل کام ہے، اسی لیے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا بنا دیا۔ (ترمذی) اور بغاوت و سرکشی سے مراد ظلم و زیادتی، اللہ نے جو حدود مقرر کیے ہیں ان سے تجاوز کرنا، عبادتوں میں غلو کرنا، اور گناہوں کا ارتکاب ہے۔