قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
شعیب نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن رکھتا ہوں اور (اس کے فضل و کرم کا یہ حال ہو کہ) اچھی (سے اچھی) روزی عطا فرما رہا ہو (تو پھر بھی میں چپ رہوں اور تمہیں راہ حق کی طرف نہ بلاؤں) اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس بات سے تمہیں روکتا ہوں اس سے تمہیں تو روکوں اور خود اس کے خلاف چلوں۔ (میں تمہیں جو کچھ کہتا ہوں اسی پر عمل بھی کرتا ہوں ٩ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ جہاں تک میرے بس میں ہے اصلاح حال کی کوشش کروں، میرا کام بننا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بننا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوں۔
(73) شعیب (علیہ السلام) نے ان کے کفر و عناد اور استہزا کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لوگو ! اللہ نے مجھے علم و نبوت کی نعمت سے نوازا ہے، اور میری حلال روزی میں خوب وسعت عطا فرمائی ہے، تو کیا میرے لیے یہ مناسب ہے کہ صرف تمہیں خوش رکھنے کے لیے اللہ کی وحی میں خیانت کروں، لوگوں کو شرک و ظلم سے روکنا اور اصلاح نفس کی دعوت دینا چھوڑ دوں؟ اور میں نہیں چاہتا کہ جن کاموں سے تمہیں روکتا ہوں وہی کام میں خود کروں، تمہیں تو بتوں کی عبادت سے منع کروں اور خود اس پر عمل نہ کروں، اور میں نے جو تمہیں خیر کے کام کرنے کی دعوت دی ہے اور برائی سے روکا ہے، تو میرا مقصود تمہاری اصلاح ہے اور مجھے ہر خیر کی توفیق دینے والا اللہ ہے، میرا اعتماد صرف اسی پر ہے اور خوشی اور غم ہر حال میں میرا ملجا و ماوی صرف وہی ہے۔