وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
اور (اے پیغمبر) تم کہیں سے بھی نکلو (یعنی سمت اور کسی مقام میں بھی ہو) لیکن نماز میں) رخ اسی طرف کو پھیر لو جس طرف مسجد حرام واقع ہے اور یقین کرو یہ یہ معاملہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے اور جانتے رہو کہ اللہ (تمہارے اعامل کی طرف سے غآفل نہیں ہے
226: مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بن جانے کے بعد مدینہ منورہ میں ایک فتنہ برپا ہوگیا، اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کردیں، اور مختلف قسم کے شبہے پھیلانا شروع کردئیے، ایسی فضا کو ختم کرنے اور مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانے کے لیے کہ کعبہ اب ابدالآباد تک کے لیے مسلمانوں کا قبلہ ہوگیا ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ مختلف اسالیب اور مختلف پیرائے میں یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشیں کرادی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو بیان کرنے کے لیے تکرار کا اسلوب اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے نبی کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ سفر و حضر میں کہیں بھی ہوں نماز میں اپنا رخ کبعہ کی طرف کریں، اور یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام امت اسلامیہ کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم لوگ جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں مسجد حرام کی طرف رخ کرو، پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے لیے فرمایا کہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تحویل قبلہ اللہ کی طرف سے ہے۔