قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ
لوط نے کہا کاش تمہارے مقابلہ کی مجھے طاقت ہوتی یا کوئی سہارا ہوتا جس کا آسرا پکڑ سکتا۔
(66) جب لوط (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ وہ بدبخت ان کے مہمانوں پر ضرور دست درازی کریں گے تو کہا، کاش ! مجھ میں قوت ہوتی یا میرے خاندان کے لوگ یہاں موجود ہوتے تو میں ضرور تمہیں مار بھگاتا، اور اپنے مہمانوں کی حفاظت کرتا۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب الملل والنحل میں لکھا ہے : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جو صحیح حدیث میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ اللہ لوط پر رحم کرے، وہ کسی قوی چیز کا سہارا ڈھونڈتے تھے، یہ لوط (علیہ السلام) پر رسول اللہ (ﷺ) کا اعتراض تھا، تو یہ بات صحیح نہیں ہے، بلکہ لوط (علیہ السلام) نے خاندان یا مسلمان پیروکاروں کے ذریعہ فوری مدد چاہی تھی، تاکہ اپنی قوم کو فعل لواطت سے روک سکیں، ان کے دل و دماغ سے یہ بات ایک لمحہ کے لیے بھی غائب نہیں ہوئی تھی کہ اللہ کا سب سے قوی سہارا انہیں ہر حال میں حاصل ہے۔ اور لوط نے اگر لوگوں کا سہارا ڈھونڈا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ İوَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ Ĭ کہ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دور نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا۔ (البقرہ : 251) اور خود نبی کریم (ﷺ) نے انصار و مہاجرین سے مدد مانگی تھی تاکہ اللہ کا دین دوسروں تک پہنچا سکیں، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے لوط (علیہ السلام) پر ایسے فعل کے بارے میں اعتراض کیا ہو جو انہوں نے خود کیا تھا؟ اس لیے حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے لوط (علیہ السلام) کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہیں اللہ کی جانب سے بھیجے گئے فرشتوں کا سہارا حاصل تھا، جس کی انہیں ابتدا میں خبر نہیں تھی۔