تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
(اے پیغمبر) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے وحی کے ذریعہ سے تجھے بتلا رہے ہیں، اس سے پہلے نہ تو یہ باتیں تو جانتا تھا نہ تیری قوم، پس صبر کر (اور منکروں کے جہل و شرارت سے دلگیر نہ ہو) انجام کار متقیوں ہی کے لیے ہے۔
(37) اس آیت کریمہ سے نبی کریم (ﷺ) کی رسالت کی تصدیق ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے واقعات کی خبر آپ کو اور آپ کی قوم کو بالکل نہیں تھی، یہ ساری تفصیلات آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہیں، اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو نصیحت کی کہ دعوت و تبلیغ کی راہ میں آپ کو جو تکلیف پہنچے اس پر نوح (علیہ السلام) کی طرح صبر سے کام لیجیے، اور اس یقین کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کیے جائیے کہ دنیا میں فتح و کامرانی اور آخرت میں نعمت ابدی ہم اپنے انہی بندوں کو دیں گے جو تقوی کی راہ اختیار کریں گے۔