قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
(خدا نے) فرمایا اے نوح ! وہ تیرے گھر کے لوگوں میں سے نہیں، وہ تو (سرتاپا) عمل بد ہے (١) پس جس حقیقت کا تجھے علم نہیں اس بارے میں سوال نہ کر۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ناواقفوں میں سے نہ ہوجانا۔
(34) اللہ تعالیٰ نے پھر نوح کو اپنا حتمی فیصلہ بتا دیا کہ اے نوح ! وہ ایمان نہیں لائے گا، اس لیے کہ وہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے، آپ کے گھر والے تو دین و شریعت کے پابند اور اہل صلاح ہیں اور وہ صالح نہیں ہے، اس لیے وہ طوفان سے نہیں بچے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو تنبیہ کی کہ جس مقصد کے پورے طور پر صائب ہونے کا آپ کو علم نہ ہو اس کا اللہ سے سوال نہ کیجیے، اس لیے کہ ایسا کرنا نادانوں کا شیوہ ہوتا ہے، علماء نے اسی سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس بات کے مطابق شرع ہونے کا آدمی کو علم نہ ہو اس کی دعا نہیں کرنی چاہیے۔