حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ
(یہ سب کچھ ہوتا رہا) یہاں تک کہ جب وہ وقت آگیا کہ ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات ظہور میں آئے اور (فطرت کے) تنور نے جوش مارا تو ہم نے (نوح کو) حکم دیا ہر قسم (کے جانوروں) کے دو دو جوڑے کشتی میں لے لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لو۔ مگر اہل و عیال میں وہ لوگ داخل نہیں جن کے لیے پہلے بات کہی جاچکی ہے (یعنی کہا جاچکا ہے کہ انہیں غرق ہونا ہے) نیز ان لوگوں کو بھی لے لو جو ایمان لا چکے ہیں، اور نوح کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے مگر بہت تھوڑے آدمی۔
(28) جب قوم نوح کی ہلاکت کا حکم آگیا اور پانی پوری شدت کے ساتھ ابلنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ زمین پر پائے جانے والے تمام جانوروں اور چڑیوں وغیرہ کے جوڑے کشتی میں رکھ لیں، اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ اپنے صرف ان رشتہ داروں کو سوار کرلیں جو ان پر ایمان لائے ہیں۔ قتادہ اور ابن جریر کے قول کے مطابق ان کی تعداد آٹھ تھی، نوح، ان کی بیوی، ان کے تین بیٹے اور ان کی بیویاں، ان کا بیٹا کنعان اور ان کی بیوی ام کنعان مؤمن نہیں تھے، اسی لیے ان کے ساتھ کشتی پر سوار نہیں ہوئے۔ اور ابن عباس کے قول کے مطابق ان کی تعداد اسی (80) تھی، ان میں نوح کے بیٹے سام، حام، یافث اور ان تینوں کی بیویاں تھیں، انہی مسلمانوں میں سے ایک شخص جرہم بھی تھا، جس کے نام سے قبیلہ جرہم مشہور ہوا جو ہاجرہ اور اسماعیل کے بعد مکہ مکرمہ میں آکر آباد ہوگیا تھا۔