سورة البقرة - آیت 142

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ عقل و بصیرت سے محروم ہیں وہ کہیں گے مسلمان جس قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے کیا بات ہوئی کہ ان کا رخ اس سے پھر گیا؟ (اے پیغمبر) تم کہو پورب ہو یا پچھم سب اللہ ہی کے لیے ہے (وہ کسی خاص مقام یا جہت میں محدود نہیں) وہ جس کسی کو چاہتا ہے (کامیابی و سعادت کی) سیدھی راہ دکھا دیتا ہے

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

206: مکی زندگی میں جب نماز فرض ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کو یہ حکم دیا گیا کہ نماز پڑھتے ہوئے اپنا رخ بیت المقدس میں موجود صخرہ چٹان کی طرف کریں، چنانچہ آپ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان خانہ کعبہ کو اپنے سامنے کرکے اور صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، ہجرت مدینہ کے بعد آپ کو دونوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، آپ سولہ یا سترہ ماہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے، اور تمنا کرتے رہے کہ اللہ ان کا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دے جو ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا۔ اللہ نے ان کی تمنا پوری کردی، اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا، آپ (ﷺ) نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور انہیں اس بات کی اطلاع دی۔ تحویل قبیلہ کے بعد آپ نے پہلی نماز، نماز عصر، خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی، جیسا کہ براء بن عازب (رض) کی روایت سے پتہ چلتا ہے جسے شیخین نے روایت کی ہے۔ اہل قبا کو اس کی خبر دوسرے دن فجر کی نماز میں ہوئی جیسا کہ ابن عمر (رض) کی روایت میں ہے جسے شیخین نے روایت کی ہے، تو لوگوں نے نماز کی حالت میں ہی اپنا رخ ملک شام سے خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ 207 : نفسیاتی طور پر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور مؤمنین کو اس بات کی اطلاع پہلے دے دی کہ کچھ نادان لوگ باتیں بنائیں گے، اور کہیں گے کہ آخر ان لوگوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور یہود، منافقین اور مشرکین عرب نے آپس میں ایسی باتیں کرنی شروع کردیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے شبہ کا جواب دیا کہ تمام جہات عالم اللہ کی ملکیت ہیں، ان میں سے کوئی جہت بذات خود قبلہ بننے کی مستحق نہیں، وہ قبلہ اس لیے ہے کہ اللہ نے اسے قبلہ بنایا ہے۔ اس لیے ایک جہت سے دوسری جہت تحویل قبلہ پر کوئی عقلمند اور سنجیدہ آدمی اعتراض نہیں کرے گا، بلکہ سمجھے گا کہ جب اللہ نے ایسا حکم دیا ہے تو یہی حق ہے، کیوں کہ تمام جہات کا مالک اللہ ہے۔