الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
الر۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں (اپنے مطالب و دلائل میں) مضبوط کی گئیں پھر کھول کھول کر واضح کردی گئیں، یہ اس کی طرف سے ہے جو حکمت والا (اور ساتھ ہی) ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے۔
(1) الر جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ان حروف مقطعات کے بارے میں مفسرین کی بہترین رائے یہی ہے کہ ان کا مقصود حقیقی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے، جس کی یہاں دو صفتیں بیان کی گئی ہیں، پہلی صفت کا تعلق قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور اس کی معجز بیانی سے ہے، یعنی قرآن کریم کے حروف و الفاظ اور جملوں اور آیتوں کا نظم و نسق اور ان کی ترتیب و ترکیب اتنی عظیم الشان اور ایسی بے بدل ہے جو انسانی قدرت سے یکسر بالا تر ہے، اور دوسری صفت کا تعلق قرآن میں مذکور دلائل توحید، احکام و واجبات، واقعات اقوام اور مواعظ و نصائح سے ہے، کہ ان کی مثال ان موتیوں کی ہے جنہیں ہار میں پرویا جاتا ہے، اور ان کے درمیان جگہ جگہ کچھ دوسرے رنگ و حجم کے موتیوں کے ذریعہ خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے، قرآن کریم کی ہر آیت اور ہر سورت اپنے اندر بنی نوع انسان کے لیے کوئی نہ کوئی خیر لیے ہوئے ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، یہ کتاب اس ذات واحد کی نازل کردہ ہے جس کا ہر فعل حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور جو ہر بات کی خبر رکھتا ہے۔