وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
اور (یاد رکھو) کسی جان کے اختیار میں نہیں کہ (کسی بات پر) یقین لے آئے مگر یہ کہ اللہ کے حکم سے ( یعنی اللہ نے اس بارے میں جو قانون طبیعت بنا دیا ہے اس کے اندر رہ کر اس سے باہر کوئی نہیں جاسکتا) اور (اس کا قانون ہے کہ) وہ ان لوگوں کو (محرومی و شقاوت کی) گندگی میں چھوڑ دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔
(64) اگر اللہ چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، لیکن اس حکمت الہیہ کی وجہ سے جس پر تمام تشریعی احکام کی بنیاد ہے، اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے نبی کریم (ﷺ) (ﷺ) کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں، اس میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر مشرکین ایمان نہیں لاتے ہیں تو آپ پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (272) میں فرمایا ہے : İلَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ)Ĭیعنی انہیں ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اسی لیے آیت (100) میں اللہ نے فرمایا کہ کوئی بھی آدمی محض اللہ کی توفیق سے ہی ایمان لاتا ہے، اس لیے آپ دعوت کا کام کیے جایئے، لیکن کسی کے ایمان نہ لانے پر پریشان نہ ہوا کیجیے، اور رسوائی اور ذلت تو ان لوگوں کے لیے لکھ دی گئی ہے جو اللہ کے بھیجے گئے دلائل میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔