وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون) پر وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں مکان بناؤ اور اپنے مکانوں کو قبلہ رخ تعمیر کرو۔ نیز (ان میں) نماز قائم کرو اور جو ایمان لائے ہیں انہیں (کامیابی کی) بشارت دو۔
(56) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے مصر میں ہی الگ بستی بسائیں، کیونکہ فرعونیوں کی شکست اور بنی اسرائیل کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں سے فرعونیوں کی دشمنی اور سخت ہوگئی تھی، اور ان کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تھا، ایک تو فرعونیوں کا ظلم و استبداد بڑھ گیا تھا اور دوسر یہ کہ مؤمن صادق اور کافر کا ایک جگہ رہنا ویسے بھی ناممکن ہوتا ہے، اہل کفر فرعون اور بتوں کے پجاری تھے، اور بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرنے والے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو مساجد کے طور پر استعمال کرو، اور اندر ہی نماز پڑھ لیا کرو، تاکہ فرعون کے کارندے تمہیں باہر مسجدوں میں نماز پڑھتے دکھ کر ایذا نہ پہنچائیں، اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو خوشخبری دیدیں کہ اللہ انہیں دنیا میں عزت و غلبہ دے گا اور آخرت میں جنت عطا کرے گا۔