لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی (کامرانی و سعادت کی) بشارت ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی اللہ کے فرمان اٹل ہیں، کبھی بدلنے والے نہیں، اور یہی سب سے بڑی فیروز مندی ہے جو انسان کے حصے میں آسکتی ہے۔
آیت (64) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ اپنی رحمت، رضامندی اور جنت کی خوشخبری دی ہے۔ امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابو الدرداء اور عبادہ بن صامت سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : دنیاوی زندگی میں بشارت سے مراد نیک خواب ہے جو مسلمان آدمی دیکھتا ہے۔ اور قرآن و سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ فرشتے موت سے پہلے اللہ کے نیک بندوں کو جنت کی خوشخبری دے دیتے ہیں۔ آیت میں اولیاء سے مراد وہ مخلص اہل ایمان ہیں جو اللہ کی بندگی اور گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے اس سے قریب ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان ہوتے ہیں اور گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ ولی کا معنی قریب ہے، یعنی مؤمن جب ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہوتا ہے اور شرک اور دوسرے گناہوں سے دور رہتا ہے تو اللہ سے قریب ہوجاتا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ ولایت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ولی مستجاب الدعوات ہوتا ہے، یعنی اس کی دعا اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے، اور مسند بزار میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک شخص نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! اللہ کے اولیاء کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا : جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ آیت (64) کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اس کا وعدہ کبھی بھی بدل نہیں سکتا، یعنی وہ اپنے نیک بندوں کو جنت میں ضرور داخل کرے گا اور اس سے بڑھ کر کونسی کامیابی ہوسکتی ہے۔