وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
یہودیوں نے کہا یہودی ہوجاؤ ہدایت پاؤ گے، نصاری نے کہا نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاؤگے۔ لیکن تم کہو، نہیں (خدا کی عالمگیر سچائی ان گروہ بندیوں میں محدود نہیں ہوجا سکتی) اس کی راہ تو وہی "حنیفی" راہ ہے جو ابراہیم کی راہ تھی یعنی تمام انسانی طریقوں سے منہ موڑنا اور صرف خدا کے سیدھے سادھے فطری طریقہ کا ہو رہنا) اور یقینا وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا
197: محمد بن اسحاق نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن صوریا (جو کانا تھا) یہودی نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا کہ ہم لوگ صحیح دین پر ہیں، اس لیے اے محمد تم ہماری اتباع کرو، اور نصاری نے بھی ایسی ہی بات کہی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی، اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو حکم ہوا کہ آپ ان سب سے کہیں کہ ہم تو ابراہیم کے دین کی اتباع کریں گے، جنہوں نے تمام ادیان باطلہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے دین حنیف (دین اسلام) پر چلنے کا اعلان کیا تھا۔ 198: اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہود و نصاری شرک میں مبتلا ہوگئے، لہذا راہ ہدایت سے وہ ہزاروں میل دور ہیں۔