وَيَسْتَنبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ بات واقعی سچ ہے؟ تم (بلا تامل) کہو ہاں میرا پروردگار اس پر شاہد ہے کہ یہ سچائی کے سوا کچھ نہیں، اور تم کھی ایسا نہیں کرسکتے کہ اسے (اس کے کاموں میں) عاجز کردو۔
(41) کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا بار بار اور مختلف انداز میں مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ ابھی اوپر گزر چکا ہے، اور ان کا جواب بھی دیا جاچکا ہے، اسی قسم کا ان کا یہ سوال بھی تھا جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اے محمد ! تم جو عذاب کی بات کرتے ہو، تو کیا واقعی سچ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو انہیں جواب دینے کو کہا کہ ہاں، میرے رب کی قسم، یہ بات بالکل صحیح ہے، اور تم اللہ کو اس سے روک نہیں سکو گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے اللہ کے حکم سے اس کے نام کی قرآن میں تین جگہ قسم کھائی ہے۔ ایک اس آیت میں کافروں کو عذاب الہی کی یقین دہانی کرانے کے لیے، دوسری سورۃ سبا آیت (3) میں قیامت کی یقین دہانی کراتے ہوئے اور تیسری سورۃ تغابن آیت (7) میں موت کے بعد کی زندگی کے اثبات کے لیے۔