وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
اور اس قرآن کا معاملہ ایسا نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اپنے جی سے گھڑ لائے، وہ تو ان تمام وحیوں کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور کتاب اللہ کی تفصیل ہے (یعنی اللہ کی کتابوں میں جو کچھ تعلیم دی گئی ہے وہ سب اس میں کھول کھول کر بیان کردی گئی ہے) اس میں کچھ شبہ نہیں، تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔
(32) گزشتہ آیتوں میں توحید باری تعالیٰ کو دلائل و براہین کے ذریعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اب نبی کریم (ﷺ) کی صداقت اور وحی الہی کی حقانیت کی بات کی جارہی ہے، اس موضوع پر کچھ روشنی اس سورت کی ابتدا میں بھی ڈالی جاچکی ہے، دیکھیے آیت (2,1) کی تفسیر۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن کریم جو فصاحت و بلاغت کی اس حد کو پہنچا ہوا ہے جو انسان کی سوچ سے بالا تر ہے، جس میں بنی نوع انسان کی دنیاوی اور اخروی بھلائی کے لیے تمام ممکن معانی و مضامین موجود ہیں، وہ اللہ کے بجائے کسی انسان کا گھڑا ہوا کلام نہیں ہوسکتا، یہ تو وہ کلام ربانی ہے جو تمام سابقہ کتب سماویہ کی تصدیق و تائید کرتا ہے، اور ان میں جو تحریفات کی گئی ہیں انہیں کھول کر بیان کرتا ہے، اور حلال و حرام اور دیگر تمام احکام جن کا تعلق انسانی زندگی سے ہے انہیں اس تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ کسی صاحب عقل کے دل میں شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔