لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
(مسلمانو) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے، تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے، وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا رحمت والا ہے۔
(102) نبی کریم کی ذات گرامی امت اسلامیہ پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے، اس سورت کا اختتام اسی نعمت عظمی کے ذکر خیر پر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام قبائل عرب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس نے اپنی پیغام رسانی کے لیے تم پر مہربانی کرتے ہوئے ایک ایسے انسان کو چنا ہے جو تم ہی میں سے ہیں اور تمہاری زبان بولتے ہیں، ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم کا ہر قبیلہ عرب سے خاندانی تعلق ہے۔ صحیح مسلم اور سنن ترمذی کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کنانہ کو اولاد اسماعیل سے چن لیا، اور قریش کو اولاد کنانہ سے اور بنی ہاشم کو قریش سے، ایک روایت میں ہے : میں تمام اچھوں میں اچھا ہوں۔ رامہر مزی نے اپنی کتاب المحدث الفاصل میں علی بن ابی طالب سے بسند متصل روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : میں نکاح کے ذریعہ پیدا ہوا ہوں، آدم سے لے کر میرے باپ ماں تک میری پیدائش میں زنا داخل نہیں ہوا۔ اسے ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اور دیلمی نے مسند الفردوس میں روایت کی ہے، اور علامہ البانی نے صحیح الجامع میں اسے حسن کہا ہے۔ نبی کریم کی دوسری صفت یہ بتائی گئی کہ آپ پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے امت مسلمہ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ آپ کی تیسری صفت یہ ہے کہ آپ دل سے تمنا کرتے ہیں کہ آپ کی امت جہنم میں نہ ڈال دی جائے اور یہ بھی تمنا کرتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی طرف اپنی امت کی رہنمائی کردیں۔ اور چوتھی صفت یہ ہے کہ آپ مؤمنوں کے لیے بہت ہی رحم دل ہیں، اسی وجہ سے چاہتے ہیں کہ وہ عمل صالح کریں اور گناہوں کا ارتکاب نہ کریں تاکہ اللہ کی جنت کے حقدار بنیں۔