التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
(ان لوگوں کے اوصاف و اعمال کا یہ حال ہے کہ) (اپنی لغزشوں اور خطاؤں سے) توبہ کرنے والے، عبادت میں سرگرم رہنے والے، اللہ کی حمد و ثنا کرنے والے، سیر و سیاحت کرنے والے، رکوع و سجود میں جھکنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اے پیغبر ! یہی سچے مومن ہیں) اور مومنوں کو) کامیابی و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔
(90) انہی مؤمنین کی کچھ دوسری نیک صفات بیان کی جارہی ہیں جن سے اللہ نے جنت کے بدلے ان کی جان و مال کا سودا کرلیا ہے، سائحون سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک روزہ دار ہیں، بعض نے اس سے مراد مہاجرین لیا ہے، اور بعض نے طلاب علم مراد لیا ہے، حافط ابن کثیر کہتے ہیں کہ ایک حدیث دلالت کرتی ہے کہ آیت میں سیاحت سے مراد جہاد ہے، ابو داؤد نے ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے کہا، یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے تو آپ نے فرمایا : میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ سیاحت سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی دنیا سے کنارہ کش ہو کر عبادت کی نیت سے پہاڑوں، غاروں اور صحراؤں میں چلا جائے، اسلیے کہ یہ رہبانیت ہے، جس کی اللہ کے رسول نے ممانعت فرمائی ہے، ہاں اگر زمین فتنوں سے بھر جائے اور آدمی کے لیے اپنے دین پر چلنا مشکل ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جائز ہے کہ شہر اور بستی چھوڑ کر پہاڑوں پر چلا جائے، جیسا کہ صحیح بخاری کی عبداللہ بن ابی اوفی سے مروی ایک حدیث سے ثابت ہے کہ فتنوں کے زمانہ میں اپنی بکریاں لے کر پہاڑوں پر چلا جانا بہتر ہوگا۔ اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں، سے مراد نماز پڑھنے والے ہیں، اس لیے کہ نماز کے افعال میں یہ دونوں زیادہ اہم ہیں، اس کے بعد اللہ نے نبی کریم سے فرمایا کہ جو لوگ مؤمن کامل و صادق ہیں انہیں آپ اللہ کی جانب سے دنیا میں فتح و کامرانی اور آخرت میں جنت کی خوشخبری دے دیجیے۔