لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے (یعنی مسجد ضرار) ہمیشہ ان کے دلوں کو شک و شبہ سے مضطرب رکھے گی۔ (یہ کانٹا نکلنے والا نہیں) مگر یہ کہ ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں (کیونکہ یہ ان کے نفاق کی ایک بہت بڑی شرارت تھی جو چلی نہیں اس لیے ہمیشہ اس کی وجہ سے خوف و ہراس کی حالت میں رہیں گے) اور اللہ سب کا حال جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
(88) منافقین نے جو مسجد بنائی اس نے ان کے نفاق میں اضافہ کردیا اور اسے ان کے دلوں میں مزید مستحکم بنا دیا، شوکانی لکھتے ہیں کہ مسجد بنانے والے تو تھے ہی منافقین، جب رسول اللہ کے حکم سے اسے جلا دیا گیا تو ان کا نفاق اور بڑھ گیا، اور اسلام کے خلاف ان کی دشمنی میں اور اضافہ ہوگیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کی یہی حالت رہے گی یہاں تک کہ انہیں موت آجائے گی۔ حافظ ابن القیم نے زاد المعاد میں غزوہ تبوک کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جن جگہوں میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی جارہی ہو انہیں جلا دیا جائے گا اور منہدم کردیا جائے گا، جیسا کہ رسول اللہ نے مسجد ضرار کو جلا دینے اور اسے منہدم کرنے کا حکم دیا، اور جب مسجد ضرار کے ساتھ ایسا کیا گیا تو وہ جگہیں بدرجہ اولی منہدم کردی جائیں گے جن میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کیا جارہا ہو۔ آگے لکھتے ہیں کہ وہ وقف جس سے مقصود اللہ کی رضا اور قربت حاصل کرنی نہ ہو صحیح نہیں ہوگی، جس طرح مسجد ضرار کا وقف رسول اللہ کی نظر میں صحیح نہیں تھا، اس لیے قبر پر بنی مسجد گرا دی جائے گی، اور اگر کوئی شخص مسجد میں دفن کیا جائے گا تو اس کی لاش وہاں سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کردی جائے گی، اس لیے کہ دین اسلام میں مسجد اور قبر دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، جو چیز پہلے سے ہوگی اسے باقی رکھا جائے گا، اور جو بعد میں وجود میں آئے گی اسے ختم کردیا جائے گا۔