أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر رکھی (جو کبھی ہلنے والی نہیں) یا وہ جس نے ایک کھائی کے گرتے ہوئے کنارے پر اپنی عمارت کی بنیاد رکھی اور وہ مع اپنے مکین کے آتش دوزخ (کے گھڑے) میں جاگری؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انہیں (کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں دکھاتا جو ظلم کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔
(87) اس آیت کریمہ میں مؤمن اور منافق کی نیت اور عمل میں جو بنیادی فرق ہے اسے بیان کیا گیا ہے، مؤمن جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو اس کی نیت میں اللہ کی رضا اور حصول جنت ہوتا ہے، اس کے برعکس منافق کی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے، اس لیے اس کی مثال اس آدمی کی ہوتی ہے جو مٹی کے کسی ایسے تودے پر مکان تعمیر کرے جو اندر سے کھوکھلا ہو، اور مکین کو لیے ہوئے گرتا ہوا جہنم میں پہنچ جائے۔