لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا ۚ لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ
(اے پیغمبر) تم کبھی اس مسجد میں کھڑے نہ ہونا، اس بات کی کہ تم اس میں کھڑے ہو (اور بندگان الہی تمہارے پیچھے نماز پڑھیں) وہی مسجد حقدار ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے (یعنی مسجد قبا اور مسجد نبوی) اس میں ایسے لوگ (آتے) ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ پاک و صاف رہیں اور اللہ (بھی) پاک و صاف رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔
(86) اس سے مراد مسجد قبا ہے حدیث میں اس مسجد کی بڑی فضیلت آئی ہے، صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم کبھی پیدل اور کبھی سواری پر اس مسجد کی زیارت کے لیے جاتے تھے اور اس میں دورکعت نماز پڑھتے تھے بہت سے صحابہ کرام کی رائے ہے کہ اس سے مراد مسجد نبوی ہے، اور ابو سعید خدری کی ایک صحیح حدیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ دو شخصوں کے درمیان اس کے بارے میں اختلاف ہوا کہ وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد روز اول سے تقوی پر رکھی گئی ہے، تو نبی کریم نے فرمایا کہ وہ میری مسجد ہے، اس حدیث کو مسلم، نسائی اور ترمذی نے روایت کی ہے، لیکن ایک اور حدیث ہے جسے امام ابو داؤد اور طبرانی نے عویم بن ساعدہ انصاری سے روایت کی ہے کہ نبی کریم مسجد قبا میں تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کی مسجد کے واقعہ میں تمہاری طہارت کی تعریف کی ہے، تو تم لوگ کس طرح طہارت حاصل کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ہم اپنی شرمگاہ اور نجاست کی جگہ کو پانی سے دھوتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسجد قبا ہے۔ اسی لیے حافظ ابن کثیر نے کہا ہے کہ جب مسجد قبا وہ مسجد ہے جس کی بنیاد طہارت پر رکھی گئی ہے تو مسجد نبوی بدرجہ اولی وہ مسجد ہے۔