وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ) کے اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کے گرد آوری کا مرکز اور امن و ھرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنا لی جائے۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں، عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سوجد کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا)
185: اللہ تعالیٰ نے امامت ابراہیم کی نشانی خانہ کعبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مؤمن کے دل میں زیارت خانہ کعبہ کی خواہش ہر دم کروٹیں لیتی رہتی ہے۔ ایک بار زیارت کرکے لوگ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو دوبارہ زیارت کی خواہش پھر پیدا ہوجاتی ہے اور اس گھر کا زائر امن میں ہوتا ہے دور جاہلیت میں آدمی اپنے باپ یا بھائی کے قاتل کو کعبہ کے سامنے پاتا اور اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی برکت تھی۔ 186: اس گھر کے بنانے والے (ابراہیم) کا رب العالمین کے یہاں وہ مقام ہے کہ اللہ نے ہمیشہ کے لیے ان کی یاد کو خانہ کعبہ سے جوڑ دیا اور ہر زائر کعبہ کو حکم دیا کہ وہ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھے امام بخاری نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، عمر بن الخطاب (رض) نے کہا کہ میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت کی۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! کاش مقام ابراہیم کو آپ نماز پڑھنے کی جگہ بنا دیتے تو یہ آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّىĬ نازل ہوئی (الحدیث) کہ تم لوگ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ۔ مقام ابراہیم وہی پتھر ہے جس پر پاؤں رکھ کر ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی دیوار بنائی تھی۔ یہ پتھر کعبہ کی دیوار سے لگا ہوا تھا، ایک شدید سیلاب میں بہہ کر مکہ کی وادی میں چلا گیا، تو امیر المؤمنین عمر بن الخطاب (رض) نے اسے وہاں سے لا کر دیوارِ کعبہ سے الگ جما دیا، اور کسی صحابی نے نکیر نہیں کی۔ حافظ ابوبکر بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مقام ابراہیم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم م) اور ابو بکر (رض) کے زمانے میں بیت اللہ سے لگا ہوا تھا، حضرت عمر (رض) نے اسے الگ کردیا۔ 187: اس میں ان مشرکین کی تردید ہے جو اللہ کے بجائے بتوں کی پرستش اس گھر کے پاس کرتے تھے جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف رب العالمین کی عبادت کے لیے بنایا تھا اور جسے ابراہیم اور اسماعیل نے اللہ کے حکم سے بتوں سے پاک کیا تھا، تاکہ ہمیشہ کے لیے یہ سنت قائم ہوجائے۔ اس آیت میں یہودو نصاری پر بھی نقد ہے کہ وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت و عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ انہوں نے ہی بیت اللہ کو حج وعمرہ میں طواف کرنے اور اس کے پاس اعتکاف اور نماز ادا کرنے کے لیے بنایا تھا، لیکن وہ لوگ ایسا نہیں کرتے، پھر خلیل اللہ (علیہ السلام) کے متبع کیسے ہوگئے؟ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ موسیٰ بن عمران اور ان کے بعد انبیاء علیہم السلام نے حج کیا تھا۔