يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
یہ (منافق) اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کہا اور واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ضرور کفر کی بات کہی، وہ اسلام قبول کر کے پھر کفر کی چال چلے اور اس بات کا منصوبہ باندھا جو نہ پاسکے، انہوں نے انتقام نہیں لیا مگر اس بات کا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے (مال غنیمت دے دے کر) توانگر کردیا ہے۔ بہرحال اگر یہ لوگ اب بھی باز آجائیں تو ان کے لیے بہتر ہے اور اگر گردن موڑیں تو پھر یاد رکھیں اللہ ضرور انہیں دنیا اور آخرت میں عذاب دردناک دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہونے والا ہے نہ مددگار۔
56۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کا شان نزول بیان کرنے کے لیے جو واقعات بیان کیے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزوہ تبوک کی تیاری کے دوران، اس غزوہ کے سفر میں، مقام تبوک میں قیام کے دوران، اور واپسی کے بعد منافقین کی زبان سے متعدد کفریہ کلمات نکلے، اور جب بھی رسول اللہ (ﷺ) کو ان کی خبر ہوجاتی اور ان سے پوچھا جاتا تو جھوٹ بول دیتے اور قسمیں کھا کر باور کراتے کہ وہ تو مخلص مسلمان ہیں، اس لیے اس سورۃ میں غزوہ تبوک کے موقع سے منافقین کے حالات بیان کرتے ہوئے کئی بار اس بات کا ذکر آیا ہے کہ منافقین قسمیں کھا کر اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنا چاہتے۔ ان میں سے دو واقعات زیادہ مشہور ہیں۔ ایک عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جس نے انصار کو غیر انصار کے خلاف ابھارنا چاہا تھا اور کہا تھا کہ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کتے کو کھلا کر موٹا کرو تاکہ تمہیں کھا جائے، اور کہا تھا کہ مدینہ واپسی کے بعد باعزت آدمی ذلیل آدمی کو نکال باہر کرے گا۔ اور باعزت سے اپنے آپ کو اور ذلیل سے (خاکم بدہن) رسول اللہ (ﷺ) کو مراد لیا تھا اور جب رسول اللہ (ﷺ) کو خبر ہوئی اور اس سے پوچھا تو قسم کھا گیا کہ اس نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ اور دوسرا واقعہ جلاس بن سوید کا ہے، جس نے منافقین سے کثرتِ نزول قرآن سے تنگ آکر کہا تھا کہ اگر یہ آدمی (رسول اللہ (ﷺ) (سچا ہے تو ہم لوگ گدھوں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ اور جب رسول اللہ (ﷺ) نے اس سے دریافت کیا تو قسم کھا گیا کہ اس نے یہ بات نہیں کہی تھی۔ کہتے ہیں کہ بعد میں جلاس تائب ہوگیا تھا۔ 57۔ امام مسلم نے الصحیح میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مقام تبوک میں قیام کے دوران بارہ آدمیوں نے رات کے وقت منہ پر نقاب ڈال کر رسول اللہ (ﷺ) کو قتل کرنا چاہا تھا، آیت کے اس حصہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ 85۔ رسول اللہ (ﷺ) کی بعثت سے پہلے اہل مدینہ بڑی تنگی میں زندگی گزارتے تھے۔ آپ (ﷺ) کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ان کی اقتصادی حالت اچھی ہوگئی۔ جب بھی مال غنیمت ہاتھ آتا رسول اللہ (ﷺ) ان کے درمیان تقسیم کرتے اور دوسرے اموال کے ذریعہ بھی ان کی ضرورتیں پوری کرتے رہتے۔ اور جلاس کا ایک غلام قتل کردیا گیا تو رسول اللہ (ﷺ) نے اسے اس کی دیت دی جس کی وجہ سے وہ مالدار ہوگیا۔ گویا اللہ نے رسول اللہ (ﷺ) کی وجہ سے اور ان کے ذریعہ انہیں خوب نوازا۔ اس احسان کا بدلہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے، لیکن اس کے برعکس منافقین نے آپ کو قتل کردینا چاہا۔ سچ کہا ہے جس نے بھی کہا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرتے رہو۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی دعوت دی ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں گے تو ان کے لیے بہتر ہے، اور گر منہ پھیر لیں گے تو اللہ انہیں دنیا و آخرت دونوں جگہ سخت عذاب دے گا۔