وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور انہی (منافقوں) میں (وہ لوگ بھی) ہیں جو اللہ کے نبی کو (اپنی بدگوئی سے) اذیت پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص تو بہت سننے والا ہے (یعنی کان کا کچا ہے، جو بات کسی نے کہہ دی اس نے مان لی، اے پیغمبر) تم کہو ہاں وہ بہت سننے والا ہے مگر تمہاری بہتری کے لیے (کیونکہ وہ بجز حق کے کوئی بات قبول نہیں کرتا) وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے (اس لیے اللہ جو کچھ اسے سناتا ہے اس پر اسے یقین ہے) اور وہ (سچے) مومنوں کی بات پر بھی یقین رکھتا ہے (جن کی سچائی ہر طرح کے امتحانوں میں پڑ کر کھری ثابت ہوچکی ہے) اور وہ ان لوگوں کے سرتا سر رحمت ہے۔ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے ان کے لیے عذاب ہے عذاب دردناک۔
47۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو منافقین مسلمانوں کے پاس آکر قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ بھی مخلص مسلمان ہیں، انمیں سے بعض ان نکتہ چیں منافقوں سے بھی بد تر ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا، کہتے ہیں کہ محمد بہت ہی سیدھا اور بے بصیرت آدمی ہے کہ وہ ہر شخص کی بات مان لیتا ہے ہم بھی جب اس کے سامنے قسم کھا لیتے ہیں تو ہماری بات بھی مان لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی کہ ہاں نبی کریم (ﷺ) سنتے تو ہیں، لیکن وہی باتیں جو مسلمانوں کے لیے مفید ہوتی ہیں اور جو ان کے لیے باعث رحمت ہوتی ہیں، اس لیے کہ وہ نرم خو ہیں، اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور مؤمنین صادقین کی خیر و صلاح سے متعلق باتوں کو مان لیتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ ایسی باتوں کے ذریعہ نبی (ﷺ) کو ایذا پہنچاتے ہیں انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔