وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ
اور اگر واقعی ان لوگوں نے نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ سروسامان کی تیاری ضرور کرتے مگر (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا، پس انہیں بوجھل کردیا اور ان سے کہا گیا (یعنی ان کے بوجھ پنے نے کہا) دوسرے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ تم بھی بیٹھے رہو۔
(36) منافقین اپنا عذر بیان کرنے میں قطعی جھوٹے ہیں اگر ان کا ارادہ آپ کے ساتھ نکلنے کا ہوتا تو ہتھیار زاد سفر اور سواری کی تیاری کرتے لیکن ان کا ایسا ارادہ ہی نہیں تھا اس لیے اگر انہیں اجازت مل بھی جاتی تو بھی آپ کے ساتھ نہ جاتے اللہ نے بھی نہیں چاہا کہ وہ آپ کے ساتھ جائیں اس لیے کہ اگر وہ جاتے تو انہی جیسے کچھ دوسرے لوگ جو آپ کے ساتھ گئے تھے انہیں خراب کرتے (جنہیں قرآن نے سماعون یعنی منافقین کے جواسیس بتایا ہے اسی لیے اللہ نے ان کے دل میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ نہ جائیں) اور مسلمانوں کی صفوں میں فساد پربا کرنے کی کو شش کرتے محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور الجد بن قیس جیسے لوگ تھے اگر یہ لوگ فوج میں ہوتے تو ان تمام لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرتے جن سے ان کا تعلق تھا اور جو ان کے دنیاوی مقام وجاہ کی وجہ سے ان کی بات مانتے تھے۔