إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ
تجھ سے اجازت طلب کرنے والے تو وہی ہیں جو (فی الحقیقت) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑگئے ہیں تو اپنے شک کی حالت میں متردد ہو رہے ہیں۔
یہاں نبی کریم (ﷺ) سے عفودرگذر کا ذکر انہیں عتاب کرنے سے پہلے اس لیے آیا ہے تاکہ عتاب پر آپ کو کوئی حزن وملال نہ ہوا اور معلوم ہوجائے کہ اگر چہ منافقین کو اجازت دے دینا منا سب نہیں تھا لیکن اللہ نے اسے درگذر فرمادیا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے بعد سورۃ نور کی آیت (62) İفَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْĬنازل ہوئی اور رسول اللہ (ﷺ) کو خبر دی ہے گئی وہ جسے چاہیں کسی بات یا کام کی اجازت دے سکتے ہیں۔ امام شوکانی نے دونوں آیتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے اس آیت کر یمہ میں پو ری طرح چھان بین کرنے سے پہلے اجازت دے دینے کی بات کی گئی جو اللہ کے نزدیک معلوم مصلحت کے خلاف تھی اور سورۃ نور والی آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کو اس آیت کے نازل ہونے کے پہلے سے ہی اللہ کی طرف سے اختیار تھا کہ آپ چھان بین کرنے کے بعد جس کو چاہیں اجازت دیں۔