كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ
ان مشرکوں کا عہد کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر آج تم پر غلبہ پاجائیں تو نہ تو تمہارے لیے قرابت کا پاس کریں نہ کسی عہد و پیمان کا، وہ اپنی باتوں سے تمہیں راضی کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے دلوں کا فیصلہ اس کے خلاف ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔ (یعنی راست بازی کے تمام طریقوں اور پابندیوں سے باہر ہوچکے ہیں)
(9) مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کے لیے اللہ کی جانب سے پروانہ امان کیسے مل سکتا ہے ؟ جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ مسلمانوں پر غالب آجائیں تو بالکل رحم نہ کریں اور اللہ کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر انہیں سخت عذاب دیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جب یہ مشرکین تم سے خوف کھائے ہوتے ہیں اس وقت ان کا جو برتاؤ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اس سے دھوکہ میں نہ پڑجاؤ یہ تو صرف اپنی منافقانہ میٹھی باتوں سے تمہیں خوش کرنے کی کو شش کرتے ہیں ان کے دل تمہارے خلاف بغض وعداوت سے بھرے ہوتے ہیں ان میں سے اکثر وبیشتر لوگ دیانت ومروت سے کو سوں دور ہیں انہوں نے دنیا کی حقیر متاع کو اللہ اور رسول پر ایمان لانے پر تر جیح دیا اور خود کو اور دوسروں کو اللہ کی سیدھی راہ پر چلنے سے روکا اور اللہ اور رسول کے ساتھ اس عداوت کی وجہ سے وہ کسی مسلمان کے سلسلہ میں کسی معاہدہ وغیرہ کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔