سورة الانفال - آیت 75

وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جو لوگ بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں۔ (انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھو) اور (باقی رہے) قرابت دار تو وہ اللہ کے حکم میں ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں (پس باہمی بھائی چارگی میں ان کے حقوق فراموش نہ کردیے جائیں) بلا شبہ اللہ ہر بات کا علم رکھتا ہے۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(66) یعنی جو لوگ ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے اور ہجرت کرکے مدینہ آگئے اور مسلما نوں کے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی سابق مہاجرین وانصار کی طرح مناصرت وموالات کے مستحق ہیں وہ بھی حقیقی مؤمن ہیں اور آخرت میں ان پر بھی اللہ تعالیٰ عفو ومغفرت کی چادر ڈال دے گا، اور جنت کی نعمتوں سے نوازے گا۔ (67) اس سے مراد وہ تمام رشتہ داریا ہیں جو رحم کے ذریعہ قائم ہوتی ہیں ابن عباس، مجاہد، عکرمہ اور حسن وغیر ہم نے کہا کہ یہ آیت معاہدہ، حلف اور اخوت ودوستی کے ذریعہ وراثت کے حکم کے لیے ناسخ ہے اس آیت کے بعد وراثت کا حکم صرف قرابت آبائی نسب اور سسرالی رشتوں کے ذریعہ با قی رہ گیا اور معاہدہ، حلف صرف آپس کے تعاون، ایک دوسرے کی مدد اور حسب معاہدہ دیگر امور واحکام کے لیے جاری وساری ہے۔ ابو داؤ د نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ پہلے لوگ حلف ومعاہدہ کے ذریعہ بغیر کسی خاندانی رشتہ داری کے ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے تو سورۃ انفال کی اس آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ ابو دا ؤد طیا لسی طبرانی اوار ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) ہی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے صحا بہ کے درمیان بھائی چارگی قائم کردی تھی جس کے مطا بق وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی İوَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍĬ رشتہ دار لوگ ایک دوسرے کے زیادہ حقدرا ہیں، تو لوگ صرف نسب کے ذریعہ ایک دوسرے کے وارث بننے لگے اور دیگر اسباب کا اعتبار نہ رہا آیت میں (کتاب اللہ) سے مراد اللہ کا حکم یا لوح محفوظ یا قرآن کریم ہے۔