الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ
(اے پیغمبر) جن لوگوں سے تم نے صلح کا) عہد و پیمان کیا تھا پھر انہوں نے اسے توڑا اور ایسا ہوا کہ ہر مرتبہ عہد کر کے توڑتے ہی رہے اور (بدعہدی کے وبال سے) ڈرتے نہیں۔
سعید بن جبیر اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیتیں یہود مدینہ بالخصوص بنو قریظہ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں اور چونکہ گذشتہ آیتوں میں دعوت اسلامی کے دشمنوں ( کفار قریش) کا ذکر ہو رہا تھا اس لیے ضمنا بنو قریظہ کا ذکر آگیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بدترین جانور قرار دیا اور ان کے بارے میں خبر دی کہ وہ کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کے قلعوں کا محاصرہ کیے جانے کے بعد پکڑے گئے تو صحابہ کرام نے ان میں سے ایک ایک سے کہا ہے اسلام قبول کرلو تاکہ قتل نہ کیے جاؤ لیکن انہوں نے قتل کیے جانے کو اسلام لانے پر ترجیح دی ان کی تیسری خاص صفت یہ تھی کہ انہوں نے جب بھی رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس پر قائم نہیں رہے، ایک بار معاہدہ کیا کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف جنگ کریں گے اور نہ کسی کی ان کی خلاف مدد کریں گے تو اس پر قائم نہیں رہے اور قریش کی ہتھیاروں کے ذریعہ مدد کی اور جب ان کی بدعہدی کا پتہ چل گیا تو اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معذرت پیش کی اور دوبارہ عہد کی تجدید کی لیکن پھر غزوہ احزاب کے موقع سے بدعہدی کردی اور ان کے ایک سراد کعب بن الا شرف نے مکہ جاکر کفار قریش کو مسلما نوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔